عام آدمی کا شہر

شہروں کو آباد کرنے اور زندہ رکھنے میں عام آدمی کا بہت ہاتھ ہوتا ہے اور اگر آپ کے شہر میں صفائی والے، دودھ والے، سبزی والے، اور چوکیدار نےکسی کچی آبادی یا دوسرے شہر سے آنا ہے تو آپ کا شہر، شہر ہونے کی تعریف پر پورا نہیں اترتا،کیونکہ وہ شہر نہ ان لوگوں کو جگہ دے رہا ہے اور زندہ رہنے کا احساس، یہ شہر ان کو صرف یہ بتا رہا ہے کہ آپ اپنا کام کریں اور واپس جائیں کیونکہ، “You don’t belong here” ۔ 
جس شہر میں کھانے کا سامان سستا نہ ملے، اور سستی رہائش دستیاب نہ ہو وہ شہر ہمیشہ مہنگا اور زندگی سے عاری رھتا ہے۔
راول لیک پارک، ایف نائن پارک میں زیادہ لوگ پنڈی سے آتے ہیں اور اس کے برعکس اسلام آباد کے لوگ کوہسار مارکیٹ یا سپر مارکیٹ جانا پسند کرتے ہیں۔  جناح سٹیڈیم اسلام آباد ہمیشہ خالی رہتا ہے، کیونکہ سٹیڈیم عام آدمی ہی بھرتے ہیں۔ اس کے برعکس پنڈی سٹیڈیم کے اطراف فوڈ سٹریٹ ہونے کی وجہ سے وہ جگی ہمیشہ آباد رہتی ہے اور پررونق نظر آتی ہے۔ 
میں یہ نہیں کہتا کہ طبقاتی          امتیاز، طبقاتی نظام معاشروں سے مکمل ختم ہو سکتا ہے۔ یہ تو ایک گُروتھ سائیکل ہے اور ایک فطری عمل بھی ہے، جو ہر دور میں بڑھتا اور گٹھتا ہے۔ لیکن ضرورت اس بات کی ہے کہ یہ فاصلہ بڑھنا نہیں چاہیے بلکہ اس کو محدود کرنا چاہئے۔  عموماً یہ تاثر لیا جاتا ہے کہ مشرقی ممالک نے اربن          پلاننگ مغرب سے سیکھی ہے۔ تو چلیے اگر ہم مغربی معاشروں کی بات کریں تو اربن پلاننگ کا مطلب امیروں یا صاحبِ حیثیت طبقے کے لیے پلاننگ کرنا نہیں ہے۔ اس کا مطلب ہے ہر طبقے کو اس پلاننگ کا حصہ بنایا جائے، تب ہی تو یہ اپنی تعریف پر پورا اترے گا۔ 
موچی گیٹ، لوہاری گیٹ، مغل پورہ، محلہ شیخاں سن کر کچھ اپنا اپنا اور جانا پہچانا لگتا ہے، اور انسانی بھی۔ سری نگر ہائے وے، اسلام آباد ایکسپرس وے، نائتھ ایوینو سن کر بہت چوڑی سڑک اور بہت رفتار سے چلنے والی گاڑیاں ذہن میں آتی ہیں اور یہ کچھ غلط بھی نہیں۔
ڈی ایچ اے فیز ۳،۲،۱ سن کر کچھ عجیب سی فِیلنگ ہوتی ہے۔ ایف ۶، ایف ۷, کے مقابلے میں سمنَ آباد، شادمان ،محلہ لوہاراں سن کر بہت اپنائیت کا احساس ہوتا ہے اور ایک ہری بھری اور آباد جگہ کا تصور ہوتا ہے۔ جبکہ  ڈی ایچ اے سن کر چمکتے ہوے گھر، اور مین گیٹ پر لائن میں کھڑے، اپنی شناخت کرواتے لوگ ذہن میں آتے ہیں۔              
شہر عام آدمی کے لیے ہوتا ہے، جہاں وہ کام کر سکتا ہے، ذندہ رہ سکتا، علم حاصل کرنے کے مواقع حاصل ہوتے ہیں اور وہ ترقی کر سکتا ہے۔ جب شہر یہ سب نہ دے سکے تو وہ شہر ، شہر ہونے کی تعریف پر پورا نہیں اترتا
یہ وہی فرق ہے جو کراچی اور اسلام آباد میں ہے۔ کراچی سب کو چھت دیتا ہے، روزگار کے مواقع فراہم کرتا ہے۔ اس میں ہر طبقے سے تعلق رکھنے والے لوگ رہتے ہیں اور زندگی گزار سکتے ہیں۔ جبکہ اسلام آباد ان خصوصیات سے عاری ہے۔ اِس لیے یہ شہر کسی کو دوست نہیں بناتا، کسی کو گلے نہیں لگاتا۔ جو شہر نمبروں پر زندہ ہو، وہ شاید اُتنا ہی مردہ ہوتا ہے۔  جس شہر میں آپ اپنے گھر کا پتہ بتانے کے لیے “پان کی دوکان کے ساتھ والی گلی” یا “نیلے دروازے سے دوسرا گھر” بتانے کی بجائے نمبر بتائیں اور نمبر بتاتے ہوۓ احساسِ کمتری یا احساسِ برتری میں مبتلا ہوں وہ پتہ، پتہ نہیں ہوتا۔ یہی وجہ ہے کہ اسلام آباد میں زندگی کم ہے اور جو ہے وہ بہت حد تک تصنوع بھری ہے۔ 

Leave a Comment